سررینڈر کا مفہوم

حکمت جو آپکو عمدہ سے عمدہ تر بناتی ہے

Salman Ehsan
6 min readFeb 6, 2020
Surrendering person, surrendering before Allah

میں الله کی رضا میں راضی، میں الله کی خوشی میں خوش، میں الله کے مجے چلانے میں چلنے کے لئے تیار- میری خودی کی پسند اور نہ پسند بے معنی ، الله جو میرے سامنے لے آے میں پورے دل سے اس اسے قبول کر کے اس رہ پی چلنے کو تیار

سررینڈر کے معنی ہیں سپردگی اور سرنگوں ہونا اور یہ ان حکمتوں میں سے ہے جو انسان کو عمدہ سے عمدہ تر بناتی ہے-

سررینڈر لوگوں کے سامنے کرنے کا کام نہیں ہے- لوگوں کے سامنے تو آپ برابر ہیں- لوگوں میں آپ کسی سے بہتر نہیں ہیں اور کوئی آپ سے بہتر نہیں ہے سواے اس کے جسے الله چاہے

سررینڈر قبولیت حکمت اور حاکمیت خداوند ہے- سرنڈر کرنے کا مطلب ہے کے آپ نے اپنے آپ کو پہچان لیا اور اپنے سے بلند ذات خداوند کو بھی پہچان لیا، اور ساتھ ہی اپنے چوٹے پین کو بھی پہچان لیا، اور مزید یہ کے الله کے ہمارے بہترین مفاد میں بہترین فیصلے کرنے کا یقین ہو گیا اور آخر میں اپنی زندگی کی کشتی اس پانی کے سپرد کر دی جو خود چلتا ہے اور آپکو اپنے ساتھ چلاتا ہے-

سررینڈر کا مطلب ہے ترک مزاحمت نفس- جوالله کریم نے اپ تک پہنچایا ہے اس کو قبول کرنے کی صلاحیت-

جیسے موسم کی ایک مثال لیں کے موسم کے سامنے ہم سرنڈر کرتے ہیں کیونکے موسم ہمارے اختیار سے باہر ہے-موسم آپکو پسند ہو یا ناپسند ہو موجود رہتا ہے- موسم کے سامنے سررینڈر کرنا ایک نیچرل سررینڈر ہے- ہم موسم کے خلاف یا اس کی مزاحمت میں کچھ کرنا چاہیں تو تب بھی کچھ نہیں کر سکتے- موسم کو سررینڈر کرنا سررینڈر تو ہے لیکن یہ سررینڈر ودآوٹ چوائس اور سررینڈر ودآوٹ پاور ہے- اصل سررینڈر کی ابتدا تب شروع ہوتی ہے جب آپ اختیار کے باوجود اپنے آپ کو سرنگوں کر دیتے ہیں- لیکن سرنگوں تو وہی ہو سکتا ہے جو بلند بھی ہوا ہو- جس نے اپنے آپ کی قیمت نہ جانی، اس نے جب خود کو سررینڈر کیا بھی تو گویا بے وقعت انسان تھا جو الله کے حضور سرنگوں کیا- اصل سرنگوں تب ہوتا ہے جب آپ جہاں میں اپنی خلافت پہچاننے کے بعد الله کے پیدا کردہ ایک قیمتی ہیرے کے طور پے الله کے حضور خود کو سرنگوں کرتے ہیں- جب دنیا پے الله کا پیدا کردہ بادشاہ جھکتا ہے تو ایک بادشاہ سررینڈر کرتا ہے اور یہ کیا عمدہ سررینڈر ہے- اگر آپ اپنا بے حد ادب کرتے ہوں، اپنی خودی پا لینے کے بعد اپنے آپ کو دنیا میں الله کی عالیشان تحلیق مان لینے کے بعد، اس حالت میں آ جانے کے بعد جو کسی انسان اور کسی ذات کے سامنے نہیں جھکتی، اپنے نفس کے سامنے نہیں جھکتی مگرالله کے آگے سرنگوں رہتی ہے تو یہ اصل سررینڈر ہے

سرنڈر اپنی بیماری کے سامنے بھی سر نگوں ہونے کا نام نہیں ہے- آپکی بیماری تو ایک الّت ہے، حالت کم صحتی ہے- آپ کم صحتی کے آگے کیسے اپنے آپ کو سر نگوں کر سکتے ہیں- اگر یہ سوال ذھن میں آ جائے تو سوچیں کے الله کو اپنے بندوں کا حالت بیماری میں رہنا پسند ہے یا حالت تندرستی میں؟ جو چیز الله کریم کو پسند نہیں، اسکے سامنے سررینڈر بھی نہیں کیا جا سکتا- بیماری کے خلاف بھی کوشش لازم ہے- اور اس کوشش کا نام جہد ہے-

الله کو حالت مفلسی بھی پسند نہیں- اس لئے مفلسی کے سامنے بھی سررینڈر نہیں کیا جا سکتا- بلکے مفلس لوگوں کو ایک عذاب سے دوچار کیا جائے گا اور وہ فریاد کہیں گے کے ہم تو مفلس اس لئے تھے کے نادار تھے اور لاچار تھے, اپنی کمائی پر احتیار نہیں رکھتے تھے تو فرشتے کہیں گے کے کیا ہجرت کرنا تمہارے لئے ممکن نہیں تھا؟ اس لئے علم کی کمی اور مال کی کمی کو بھی سررینڈر نہیں کی جا سکتا- اور اس کوشش کا نام جہد ہے

الله کو معاشرے میں فساد بھی پسند نہیں، اور جو فساد پید کرتا ہو، اسکے سامنے بھی سررینڈر نہیں کیا جا سکتا- اسکے خلاف بھی کوشش واجب ہے اور یہ بھی جہد ہے-

وہ مقام جہاں سرنڈر درکار ہے

مثال لیں کے ایک اجنبی شخص آپ کے پاس آتا ہے اور رات کے ١١ بجے ہیں، سردی ہے اور وہ آپ سے کسی کے علاج کی خاطر٢٠ کلومیٹر دور جانے کی درخواست کرتا ہے- جانا آپ کے احتیار میں ہے- ذہن کی اور جسم کی ضرورت کی مانیں تو جانا لازم نہیں- آپ نہ جایں تو آپکو گناہ نہیں، چلے جایں تو کوئی مالی فائدہ نہیں- آپ کا اختیار بھی ہے اور جانا مشکل بھی- اب یہ موقع ہے جب آپ سررینڈر کریں اور مشکل کے باوجود اس کام کو اس لئے کریں کے الله نے یہ بندا بھیجا ہے اور میں الله کے بھیجے موقے کے آگے سررینڈر کرتا ہوں-

پھر سوچیں کہ آپکو کوئی تحفے میں مچھلی دے گیا ہے- مچھلی آپ کھا سکتے ہیں یا کوئی ضرورت مند جو اسی وقت آپکے پاس پوھنچ گیا ہے- ایک آپ کی پسند ہے اورایک الله کے بھیجے اس بندے کی- جب آپ الله کی مرضی کے آگے اپنی مرضی کی قربانی دیں تو یہ سررینڈر ہے-

پھر سوچیں کے آپ کا لاہور جانے کا دل کیا ہے، اور رکنے کی وجہ نہیں اور جانے کی بھی وجہ نہیں- سواے ایک دل کی دھڑکن کے کسی نے یہ بات نہیں کی- اب اپ اس دھڑکن پہ ذہن سے سوچیں تو نفع اور نقصان سوچیں گے لیکن اگر نفع نہ ہونے کے با وجود آپ روانہ ہو جایں تو آپ اس آواز کو سررینڈر کریں گے- اور یہ سررینڈر کی وہ قسم ہے جسکو مائیکل سنگر نے اپنی کتاب تھے سررینڈر اکسپیری منٹ میں خوب سمجھایا ہے

اگر آپ سمجھے ہیں تو سررینڈر اور جہد دونوں ہی ایک اصول کے دو اطراف ہیں. دونوں ہی الله کی رضا کے لئے ہیں اور دونو ہی میں آپکی بلندی کا سامان ہے

سررینڈر اور اکٹوٹی

سررینڈر کا مطلب یہ نہیں کے آپ لیک آف اکٹوٹی کا شکار ہوں جایں- سررینڈر کرنے کا مطلب فقدان سرگرمی نہیں ہے- جو سررینڈر انسان کے سامنے ایک فوج کرتی ہے، اس سررینڈر میں سرگرمی کا احتتام ہو جاتا ہے- خدا کے سامنے کیے ہوئے سررینڈر میں آپ صرف اپنی مرضی سرنگوں کرتے ہیں جب کے آپ کے اوسان اسی طرح سرگرم ہوتے ہیں جیسے الله کریم کو پسند ہیں- جو لوگ اکٹوٹی چھوڑ کے دنیا سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں، وہ خائف زندگی کی حالت میں ہوتے میں ہوتے، حالت سررینڈر اور حالت سپردگی میں نہیں- آپ فقراء کی اس حالت کو ایک حالت فرار سے تشبیہ دے سکتے ہیں- حالت فرار آپکو دنیا سے دور کر دیتی ہے لکن یہ وہ سررینڈر ہے جو اسلامی ماشرے کے تشکیل نہیں کر سکتی- خائف زندگی کی حالت اور حالت سپردگی (دی سررینڈر آف سلف) برابر نہیں- سررینڈر آپ کو روز کرنا پڑتا ہے اور جو روز آپ سے الله کی مرضی کے آگے جھکنے کا مطالبہ کرتی ہے-

سررینڈر اور کم ہمتی

سررینڈر حالت کم ہمتی بھی نہیں- کم ہمتی اور کم کردگی کا مطلب ہے اپنے تحفہ زندگی کا ضیا. جو شخص یہ دعوا کرے کے میں حالت کم کردگی میں اس لئے ہوں کے سررینڈر کے ہوئے ہوں تو گویا وہ خود بندشی میں ہے- اپنے آپ کو خود ہی جکڑے ہوئے ہے. کیا خود کشی جائز ہے؟ جب خودکشی جائز نہیں ہے تو زندہ رہتے خود بندشی کیسے جائز ہے؟ خود بندشی کی حالت میں تو وہ شخص ہو جو خود کو بے وقت جانتا ہو اور جس نے خود کو بے وقت خیال کیا، وہ خود سے بے ہوش ہے اور جو بے ہوش ہو وہ سررینڈر کا دعویدار ہی نہیں. اس لئے سررینڈر کی حالت میں آپ کی کارکردگی اگر بڑھ نہیں جاتی تو کم بھی نہیں ہونی چاہیے.

سررینڈر اور اکتفا حال

سرنڈر کا مطلب اکتفا حال بھی نہیں- اکتفا حال کا مطلب ہے کہ جو میرے پاس ہے میں اس سے بہتر کا یا تو حقدار نہیں یا اس سے بہتر ممکن نہیں یا پھرمیں اس سے بہتر کا اہل نہیں. جو انسان خود سے ناواقف ہے وہ تو اس غلطی کا حامل تو ہو سکتا کے اسکی زندگی کا میعار کم ہو، لیکن جو خود اور اپنی لا محدود طاقت سے واقف ہو جائے وہ دماغ کی محدودیت کا شکار نہیں رہے گا. ایسے شخص کے لئے ہر منزل سے آگے ایک منزل موجود ہے اور وہ الله کے حکم اور الله کی رضا کے لئے علم و ہنر کی تعام موجودہ منزلوں سے آگے جانے کے لئے تیار ہو گا.

استاد موحترم علامہ محمّد اقبال نے کیا خوب فرمایا

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں،

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

الله کریم ہمیں سیرات مستقیم پہ چلنے اور ہدایت پا جانے والوں میں شامل فرمانے- آمین

Sign up to discover human stories that deepen your understanding of the world.

Free

Distraction-free reading. No ads.

Organize your knowledge with lists and highlights.

Tell your story. Find your audience.

Membership

Read member-only stories

Support writers you read most

Earn money for your writing

Listen to audio narrations

Read offline with the Medium app

--

--

Salman Ehsan
Salman Ehsan

Written by Salman Ehsan

A follower of the straight-path, a student of life and a change maker, within.

No responses yet

Write a response