Hakayat-e-Sulaiman

Salman Ehsan
7 min readFeb 2, 2020

--

بلی کی مسواک

ایک بلی کی مسواک گم گئی. اس نے کتے سے پوچھا، او کتے بھائی آپ نے میری مسواک تو نہیں دیکھی؟ تو کتا بولا، بلی بہن مجے نہیں پتا آپ درخت پے رهنے والے اس بندر کے بچے سے معلوم کرلیں. بلی نے جب بندر سے پوچھا تو بندر غصے سے بولا، اس کتے نے آپکو گمراہ کیا ہے. اپ کی مسواک اسی کتے کے پاس ہے، اور اگر وہ کتا نہ ماننے تو اس کتے کے بچے سے پوچھیں جو اس کے پاس رہتا ہے، یقیناً وہ جانتا ہو گا.

بلی نے جب بندر سے اتنی گندی زبان میں گفتگو سنی تو بولی، بندر بھائی آپ کی زبان بہت گندی ہے. آپ اسکو ایکسپریس سرف سے دھویا کریں.

نتیجہ: اپنی مسواک حفاظت سے رکھنی چاہے.

امرود والا

ایک عورت بازار گئی. اس نے وہاں پے ایک ریڑھی پے امرود دیکھے اور ریڑھی والی سے پوچھا، بھائی کیا یہ امرود ہیں؟ تو ریڑھی والے نے جواب دیا “نہیں باجی یہ لنڈے کی نیکریں ہیں”. یہ سن کر وہ عورت شرمندہ ہو گئی اور بولی، معاف کرنا بھائی مجے لگا یہ امرود ہیں تو ریڑھی والی نے کہا، کوئی بات نہیں باجی، بڑے شہروں میں نیکر اور امرود میں کم ہی فرق ہوتا ہے. آپ یہ بات دل پے نہ لیں.

نتیجہ: بڑے شہروں میں امردو والے نہ پوچھیں کے یہ کیا یہ امرود ہیں.

دو درزی

دو درزیوں میں لڑائی ہو گئی. ایک درزی نے دوسرے سے کہا “تم گدھے ہو” اور دوسرے نے پہلے سے کہا کے تم مٹی میں پیدا ہونے والے وہ کینچوے ہوجو آدھا کلو شکرقندی نہیں کھا سکتا. تو دوسرا درزی بولا، منگواؤ شکرقندی میں ابھی تمکو کھا کے بتاتا ہوں تو درزی نے پھر شکرقندی منگوائی اور پہلے درزی نے کھا لی تو پھر دوسرے درزی نے غصے میں کہا، اچھا ٹھیک ہے تم پھر مٹی میں پیدا ہونے والے وہ کینچوے ہو جو آدھ کلو شکرقندی کھا جاتا ہے تو اس پر پہلے درزی نے کہا، نہیں میں کینچوا نہیں ہو تو اس پر دوسرے درزی نے کہا، بھائی اب میرا آدھا کلو شکرقندی کا خرچہ بھی ہو چکا ہے اور میں نے دو گھنٹے لڑائی میں بھی ضائع کر دیے ہیں. میں نے جا کر شلوار کو نیفا ڈالنا ہے اب مجھے اجازت دو ہم اپنی لڑائی کسی اور دن جاری رکھیں گے.

نتیجہ: کبھی کسی کو یہ نہ کہیں کے تم آدھ کلو شکرقندی نہ کھا سکنے والے کینچوے ہو ورنہ آپکی شلوار میں نیفا نہیں ڈلے گا.

بزرگ اور لسی

ایک آدمی کو لسی بنانے کا بہت شوق تھا. وہ ہر وقت لوگوں کو لسیاں بنا بنا کے پیش کرتا تھا، لیکن اس کی لسی میں لذت نہیں تھی اور اکثر لوگ اسکی لسی پسند نہیں کرتے تھے. ایک دن ایک بزرگ وہاں سے گزرے اور اس شخص نے لسی بنا کے ان بزرگ کو پیش کی، تو بزرگ نے لسی پی کے اس شخص سے مخاطب ہوئے اور بولے، بیٹا آپ اپنی بنائی لسی خود کیوں نہیں پیتے تو وہ بولا با با جی مجے لسی پینا پسند نہیں ہے میں بس بنانے کا شوقین ہوں. اس پر بابا جی نے کہا کے بیٹا اپ کا شوق مبارک ہے اور مجے آپکی نیت میں فتور بھی نہیں دکھائی دیتا، لیکن اگر آپ اپنی لسی میں ٹماٹر ڈالنا بند کر دیں تو شائد اسکا ذائقہ قابل برداشت ہو.

نتیجہ، اپنی بنائی لسی خود بھی چکھا کریں کے وہ قابل استمال ہے کہ نہی

کدو کی باجی

ایک کدو اور اسکی باجی اپنے پودے پے لٹکے رهتے تھے. کدو لٹک لٹک کے تھک گیا اور باجی سے بولا، کدو باجی، تو کدو کی باجی نے کہا، کیا بات ہے کدو بھائی، تو کدو نے ہمّت کر کے کہا، باجی آپکی عمر کتنی ہے؟ تو کدو کی باجی غصہ کر کے بولیں، گدھے کی اولاد میری عمر کیوں پوچھ رہے ہو؟ اپنی عمر دیکھی کیسا پیٹ نکالا ہوا ہے شادی شدہ لگتے ہو. کدو یہ غصے دار جواب سن کے گھبرا گیا اور لرزتی آواز میں بولا، باجی میں نے تو صرف اس لئے پوچھا تھا کے آپ کب سے اس پودے سے لٹک رہی ہیں. اس پر باجی کو تسّلی ہوئی اور بولیں، اچھا، سوا تین مہینے. اس پر کدو حیرت سے بولا، باجی آپ لٹک لٹک کے تھک نہیں جاتیں؟ تو باجی بولیں، نہیں میں سگرٹ جو نہیں پیتی.

نتیجہ: اگر آپکی باجی کدو ہیں تو انکی عمر نہ ہی پوچھیں

امجد کا مشورہ

بھلے دور کی بات ہے، ابھی “در فٹے موں” کا لفظ ایجاد نہیں ہوا تھا. لوگ سادہ تھے، اول تو غصہ کرتے نہیں تھے اور جب کرتے بھی تھے تو بس موں پھلا کے چپ چاپ کھڑے رهتے کے اگلا انکی ناراضی خود ہی جان لے. یہ بات گاؤں کے کمزور افراد کے لئے گراں گزرتی تھی جو تھوڑی دیر کھڑے ہونے کے بعد تھک جاتے جب کے انکا غصہ ابھی باقی ہوتا تھا. گاؤں کے چوہدری صاحب نرم دل تھے. انہوں نے جب جانا کے کمزور افراد کے غصہ کرنے میں مسائل ہیں تو انہوں نے پنچایت بلائی اور باہمی رضامندی سے فیصلہ کیا کے آیندہ ہم چپ چاپ کھڑے نہیں ہوا کریں گے اور “فٹے موں” کہ کر بیٹھ جایا کریں گے تا کے کمزور افراد کا غصہ خراب نہ ہو.

اس فیصلے نے گاؤں میں آسانی تو پیدا کر دی لیکن کچھ لوگ نا سمجھ تھے اور “فٹے موں” کے جواب میں والیکم اسلام کہ دیا کرتے تھے. پھر امجد نے مشورہ دیا کے ہمیں اس لفظ کے ساتھ “در” ضرور لگا لینا چاہیے تا کے لوگ اس مغالطے سے محفوظ رکھیں. لوگ پھر بھی غلطیاں کرتے تھے لیکن امجد کی یہ کاوش آج بھی تاریخ کا حصّہ ہے.

نتیجہ: امجد سے مشورہ کر لیا کریں.

تتو کی تربیت

تتو رخشندہ باجی کا چھوٹا بیٹا تھا جسے اپنی تربیت کا بہت شوق تھا. وہ روزانہ صبح سویرے اٹھ کے بازار چلا جاتا اور وہاں بیٹھے تھرے بازوں کی گفتگو سنتا، ان کی زندگی کے واقعیات میں دلچسبی لیتا اور انمول سبق سیکھ سیکھ کے اپنی امی سے مشورے کرتا. بظاھر تو تتو کی تربیت ہو رہی تھی لیکن حقیقت میں رخشندہ باجی کی علمی منازل طے ہو رہی تھیں. انہوں نے گھر بیٹھے بیٹھے کبوتر بازی، جوا کرانا اور کتوں کی اقسام کا علم حاصل کر لیا. ایک دن جب تتو کے ابو گھر آے تو انہوں نے رخشندہ باجی سے ازراہ مزاح کہا کے کیا ہمارا بیٹا چھوٹی موٹی چوری چکاری کر لیتا ہے تو رخشندہ باجی مسکرا دیں اور ایک توقف کے بعد بولیں، خالی وہ ہی قابل نہیں ہو گیا، اب تو میں بھی ڈاکے ڈال لیتی ہوں. تتو کے ابو نے جب یہ سنا تو انکی آنکھوں میں آنسو آ گئے. کہنے لگے کے مجے رشتے والی ماسی نے کہا تھا کے رخشندہ ایک ہنر مند خاتون ثابت ہو گی اور انہوں نے برسوں پہلے وہ دیکھ لیا تھا جو میں آج دیکھ رہا ہوں.

نتیجہ: رشتے والی ماسی کی باتیں غور سے سنا کریں.

آصف والا

اک دور دراز گاؤں تھا جہاں کسی بھی شخص کا نام آصف نہیں تھا- اس گاؤں کے بڑوں کو فکرہوئی کے کوئی آصف نام کا بندا اس علاقے میں موجود نہیں تو انہوں نے اس امید سے کے کوئی تو آصف اے گا، اپنے گاؤں کا نام آصف والا رکھا دیا- پھر ماہ و سال گزرنے لگے اور گاؤں میں کئی ایک شادیاں ہوگئیں اور لوگ صاحب اولاد بھی ہوئے, لیکن شرم اور کسی کی حق تلفی کے خوف سے کسی نے بھی اپنے بچے کا نام آصف نہیں رکھا- گاؤں کے بڑے بوڑہے بازاروں اور گلی کوچوں میں بیٹھ کر حاملہ عورتوں پے نظر رکھتے, بچوں کی ولادت سے پہلے شرطیں لگاتے, جوا کھیلتے کے فلا عورت حاملہ ہے اس کے ہان آصف آے گا، لیکن قسمت کی ستم ظریفی کے آصف نہ آیا- اپنی تین عداد بکریاں، ایک گدھا اور اپنے والد صاحب کا پرانا لٹو جوے میں ہارنے کے بعد گاؤں کے سرپنچ سٹپٹا اٹھے اور آپے سے باہر ہو کر بولے کہ کیا گاؤں والوں کا ضمیر مر چکا ہے؟ کیا سب بے حس ہیں کہ آج تک آصف والا میں کوئی آصف پیدا نہیں ہوا؟ لوگ شرم کے مارے بغلوں میں سر دینے لگے- اس پر سرپنچ صاحب نےعلان کیا کہ آصف کی گاؤں میں موجودگی کا زیما وہ اپنے کندھوں پہ لیتے ہیں- پھر کچھ لوگ کہتے ہیں کے انہوں نے گاؤں کے حکیم سے رابطہ کیا اور دعا کے لئے کہا، لیکن کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کے دعا کے لئے مولوی صاحب کو کہنا چاہیے تھا, حکیم صاحب کو کیوں زحمت دی؟ اس کے پیچھے کیا حکمت ہے، یہ بات ہم بھی نہیں جانتے

چند نادان دوست کہتے ہیں کے حکیم صاحب کو وہ دعا بھول گئی ہے جس کی بدولت لوگ صاحب اولاد ہوا کرتے تھے کیونکے سرپنچ صاحب کے غصہ کرنے اور اپنے سر زیما لے چکنے کے باوجود آصف والا میں آج تک ایک بھی آصف نہیں

نتیجہ: اپنے گاؤں کا نام تجویز کرنے سے پہلے پوچھ لیں کے حکیم صاحب کو دعا یاد ہے کے نہیں؟

صابرہ کی بردباری

صابرہ ایک بردبار خاتون تھی- اسکی بردباری دور دور تک مہشور تھی- لوگ قافلوں کی شکل میں جب سفر کرتے تو ایک دوسرے کو صابرہ کی بردباری کے قصے سناتے- جب مجے صابرہ اور اسکی بردباری کا علم ہوا تو میں بھی بردباری کے شوق میں صابرہ کے گاؤں جا پہنچا- میں جیسے ہی گاؤں میں داخل ہوا، کچھ لوگوں نے مجے اجنبی جانتے ہوئے خود ہی پوچھ لیا کے کہیں تم صابرہ کی بردباری تو نہیں دیکھنے آے؟ میں خیراں رہ گیا اور ساتھ میں میرا اشتیاق مزید بڑھ گیا کے وہ کیا بردباری ہے جسکے دیکھنے والے بھی دور سے پہچانے جاتے ہیں؟

میں گاؤں میں شام ڈھلے داخل ہوا تھا اور میں نے آرام کے بغیر ہی چاہا کے صابرہ کی بردباری دیکھ لوں، لیکن مجھے گاؤں کے لوگوں نے کہا کے بردباری سہی سے دیکھنی ہے تو دن چڑھے جانا- میں نے رات ایک سراے میں بمشکل گزاری اور ساری رات یہی خیال ذھن میں گھومتا رہا وہ کیا ہے جسکی اس قدر دھوم ہے اور میں اتنے قریب ہو کے بھی اس کے نظرے سے محروم ہوں؟ صبح کی پہلی کرن نکلی تو میں صابرہ کے گھر کے باہر جا بیٹھا، اور کچھ انجانے خوف اور کچھ اشتیاق کی وجہ سے ادھر ادھر دیکھنے لگا کے کہیں مجے کچھ تو سمجھائی دے- اتنے میں صابرہ کے گھر کا دروازہ کھلا اور ایک موٹی خاتون مجے دیکھتے ہی بولی؟ بردباری دیکھنے آے ہو اور صبح اتنی جلدی؟ میں نے جھجھکتے جھجھکتے اپنا سر اثبات میں ہلایا تو مجے اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کے وہاں، اس دیوار کے پیچھے- میں کچھ لمحے اس کا منہ تکتا رہا اور پھر دبے پاؤں جب دیوار کے پیچھے پونچھا تو میں نے دیکھ لیا جو میں کبھی نہیں بھول سکا- وہاں ایک تندرست بھیڑ بندی تھی جس پر لال مہندی سے لکھا تھا، بردباری- میں ابھی بھیڑ پر لکھے حروف فردن فردن پڑھ ہی رہا تھا تو پیچھے سے ووہی خاتون بولی، “اور ہاں میں ہی صابرہ ہوں

نتیجہ: بعض بردباریاں آپکو اپنے محلے ہی میں نظر آ جاتی ہیں- کسی دور کی بردباری دیکھنے سے اجتناب کریں-

Sign up to discover human stories that deepen your understanding of the world.

Free

Distraction-free reading. No ads.

Organize your knowledge with lists and highlights.

Tell your story. Find your audience.

Membership

Read member-only stories

Support writers you read most

Earn money for your writing

Listen to audio narrations

Read offline with the Medium app

--

--

Salman Ehsan
Salman Ehsan

Written by Salman Ehsan

A follower of the straight-path, a student of life and a change maker, within.

No responses yet

Write a response