ادب کرنا کیسے سیکھا جائے
What is respect, and how to learn to be respectful.
Following writing is in Urdu for the benefit of intended audience in Pakistan.
ادب کرنا کیسے سیکھا جائے
میرے دل میں ایک سوال تھا کہ الله کریم کا ادب کیسے کیا جائے. ہم الله کی نماز پڑھتے ہیں، الله کے حکم پے چلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ دونو کام تابعداری ہیں. ادب تابعداری سے آگے کی کوی چیز ہے لیکن کیسے سمجھ آے کہ ادب کیا ہے؟ ہم کو لگتا ہے کے ہم اپنے والدین کا، اپنے اساتذہ کا، اپنے سے بڑوں کا ادب کرتے ہیں، لیکن وہ کیا حالت ہے جس کو ہم ادب کی حالت کہتے ہیں؟ کیا وہ کوئی جسمانی حرکت ہے، جیسے کہ اپنے سر کو جھکا دینا، یا اپنی آواز کو نیچا کر دینا ؟ یا کہ ادب دل کی حالت ہے جو کے ہم پی طاری ہوتو ہم کہتے ہیں کہ ہم ادب کی حالت میں ہیں؟
ادب کا مطلب ہے حسن سیرت. کسی کے ساتھ برتاؤ کو ادب کہتے ہیں. ادب کو سمجھنے کے لیا ذرا ایک لمحہ حسن کو سمجھیں، حسن کسی حرکت کے یا ایکٹیویٹی کے بغیر بھی حسن ہے. جسے جو پھول حسین ہے، وہ خود بھی حسین ہے اور اس کی ساکن تصویر بھی حسین ہے. اگر پھول کی صرف تصویر ہی ہو، تو وہ بھی پیاری لگے گی جسے کے پھول ہماری آنکھوں کو نظر آتا ہے.
لیکن ادب اپنی ساکن حالت میں موجود نہیں ہوتا. ادب کا مطلب ہے “کام کی خوبصورتی”، “رویے کی خوبصورتی” اور “کردار کی خوبصورتی”. ادب کے لیے ایکشن ضروری ہے. جب ادب میں سے ایکشن نکال یں تو وہ احترام بن جاتا ہے اور احترام خوبصورتی کی طرح ساکن حالت میں بھی موجود رہ سکتا ہے.
ادب کے معنی ہیں کسی برتاؤ کا شاندار ہونا، کسی برتاؤ کا حسین و جمیل ہونا. ادب ہے کے الله کے ساتھ معاملہ کیسا ہے. ادب ہے کے نبی محترم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ معاملہ کیسا ہے. اپنے والدین کے ساتھ معاملہ کیسا ہے . اپنی اولاد کے ساتھ معاملہ کیسا ہے. جانوروں کے ساتھ معاملہ کیسا ہے. دشمنو کے ساتھ معاملہ کیسا ہے. نیکو کاروں کے ساتھ معاملہ کیسا ہے، بد کاروں کے ساتھ معاملہ کیسا ہے.جیسے اخلاق آپ کی گفتگو کی خوبصورتی ہے،ویسے ادب آپ کے کردار کی خوبصورتی ہے. جب سمجھ آ جائے تو آپ جن جایں گے کے ادب اور اخلاق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں.
لیکن جب کوئی آپ کا ادب نہیں کرتا تو کیا کریں؟
جب آپ کسی سے ملتے ہیں اوراس شخص سے آپ کو ادب نہیں ملتا، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص آپ کو ادب نہیں دے رہا ، یا اپ میں کوئی کمی ہے جس کی وجہ سے ادب نہیں مل رہا، بلکہ اس کا مطلب فقط اتنا ہے کہ اس شخص کا ادب خراب ہے. اس شخص کا ادب بد شکل ہے. اس شخص کا اخلاق بیمار ہے. ایک دوسری مثال لیں، اگر کسی شخص سے بدبو آے، تو اسکا مطلب یہ نہیں کے وہ آپ کو بدبو پیش کر رہا ہے، اسکا مطلب فقط یہ ہے کے اس شخص کے اندر بدبو موجود ہے، اور وہ بدبو آپ کو آ رہی ہے، اور یہ بدبو ہر اس شخص کو آے گی جو اس کے قریب ہو گا. جب آپ کو کوئی بے ادب شخص نظر آتا ہے، تو وہ سب کے لیے بے ادب ہے، اور یہ اپ کی نہیں اس شخص کی ناکامی ہے.
کیا آپ نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا پھول دیکھا ہے جو کسی کو تو خوشبو دے اور کسی کو بدبو؟ جو شخص دعوا کرتا ہے کے وہ اپنے والدین کا ادب کرتا ہے، اور کسی ملازم، غریب سے اور اجنبی سے بد-تمیزی کرتا ہے، تو وہ یقینن بدبو دار پھول ہے، جو کبھی کبھی کسی کو بناوٹی خوشبو دے دیا کرتا ہے. لیکن اگر آپ با ادب انسسان ہیں، تو آپ ہر وقت، ہر شخص کو ہی خوشبو دیا کریں گے.
بادشاہ اور استاد کا ادب
بادشاہ اور استاد ایک لحاظ سے ایک دوسرے کے متضاد ہیں. ایک دوسرے کا الٹ ہیں اور ایک دوسرے کے مخالف ہیں. بادشاہ آپ سے مانگتا ہے، اپ کو کچھ بھی دۓ بغیر مانگتا ہے. اپ سے ادب مانگتا ہے، آپ سے اپنی طاقت کا اقرار مانگتا ہے، آپ سے اپ کے چھوٹے ہونے کا اظہار مانگتا ہے. اگر اپ کے ملک پہ بادشا کی حکومت ہے تو آپ کو یہ سب دینا پڑتا ہے. لیکن استاد اس سے الٹ ہے. استاد آپ کو دیتا ہے. آپ کو دے کے آپ سے کچھ بھی نہیں مانگتا. استاد آپ کو آپ کی طاقت کا یقین دلاتا ہے. آپ کو اپنے موجودہ علمی قد سے بڑے ہونے کا طریقہ بتاتا ہے. تو جب آپ اپنے شاگردوں یا بچوں کے سامنے جایا کریں، تو اپنے لیے بادشاہوں والا ادب نہ مانگا کریں. بادشاہ دار حقیقت مانگتا ہے اور جو مانگتا، یا ملنے کی توقع رکھتا ہے وہ چھوٹا ہے.
حضرت علی کا ارشاد ہے، اخلاق سب سے بری دولت ہے. اگر آپ استاد ہیں، والد یا والدہ ہیں، یا گھر کے بڑے ہیں، ، تو اپ کے فرائض میں سے ایک فرض یہ ہے ک آپ اپنے شاگردوں اور بچوں کو عمدہ ترین دولت سے نوازیں، اور عمدہ ترین دولت اخلاقیات کی دولت ہے. آپ جو بچوں میں ڈالیں گے، بچوں سے ووہی باہر نکلے گا.
ادب کیسے سکھایا جائے
زندگی کے ایک استاد نے سکھایا ہے کہ اگر آپ نے ہزار روپے کی قدر کرنا سیکھنی ہےاور اس کو بچانا یا اس کا صحیح استمال کرنا ہے تو سو روپے کی قدر کرنا شروع کر دیں. اگر سو روپے کی قدر کرنا سیکھنی ہے تو دس روپے کی قدر کرنا شروع کر دیں، اور اگر دس روپے کی قدر سیکھنی ہے تو ایک روپے کی قدر کرنا شروع کر دیں. اس کا مطلب ایک روپیہ خرچ کرتے وقت سوچیں جو آپ ہزار روپیہ خرچ کرتے وقت سوچنا چاہتے ہیں. جو تھوڑے کی قدر نہیں کرتا، وہ زیادہ کی قدر بھی نہیں کر سکتا اور الله اس کو زیادہ دیتا ہے جو تھوڑے کی قدر کرنا جانتا ہے.
اب آپ کسی بچے کو ادب کرنا سکھا رہے ہیں، تو یہ اس صورت میں آے گا جب بچہ اپنے سے چھوٹے بچوں کی قدر کرنا سیکھے گا. خصوصاً ایسے بچوں کی جو عمر میں اور مال اور زندگی کی سہولیات میں آپ سے کم تر ہوں. جب آپ اپنے سے چھوٹے لوگوں کا ادب کرنا سیکھ جاتے ہیں، تو اپنے سے اوپر والے لوگوں کا ادب خود ہی عطا ہو جاتا ہے.
ادب کی بنیاد
ہم کو لگتا ہے کے . ہم اوپر کی طرف گروو کرتے ہیں، لیکن حقیکت یہ ہے کے ہم اوپر گروو کرنے سے پہلے نیچے کی طرف گروو کرتے ہیں. اپ پودوں سے پوچ لیں، وہ آپ کو بتایں گے کے پہلی گروتھ نیچے کی طرف ہے، اور پھر اوپر کی طرف کی گروتھ عطاء ہوتی ہے. جب کسی چھوٹے پودے کو اچھی مٹی اور کھاد ملتی ہے تو وہ اس سے پہلے کے اپنے تنا بڑا کرے، وہ اپنی جڑ بڑی کرتا ہے. اگر جڑ بڑی نہ ہو اور صرف تنا بڑا ہو جائے تو تنے کی گروتھ پودے کے لیے بوجھ ہو گی اور وہ پودے کوزمین پے گرا دے گی، اور وہ پودا حلاق ہو جائے گا. کسی بلند عمارت کی تعمیر کا اصول بھی یہی ہے، کے جتنی بلندی اوپر کی طرف چاہیے اس سے پہلے اسکی بنیاد کی گہرائی تیار ہوتی ہے. جب ہم الله کریم کا ادب مانگے ہیں، تو اوپر کی گروتھ مانگتے ہیں،اب سوچیں کہ آپ پہلے کہاں گرو کریں کہ آپ کو الله کریم کےادب کا تحفہ نصیب ہو جائے؟
ادب کا آغاز
انسان دنیا پرالله کی پیدا کردہ زندگی کی بہترین شکل ہے، لکن الله کریم نے زندگی کو بےشمار شکلوں میں پیدا فرمایا ہے. جس شخص کو الله کی دوسری محلوق کا ادب کرنا آ گیا، وہ یقیناً انسانوں کا ادب کرنا بھی سیکھ جائے گا. اور جو انسانوں کا ادب کرنا سیکھ گیا، اس سے امید کی جا سکتی ہے کے وہ پروردگار کا ادب کرنا بھی سیکھ جائے. اپنے آس پاس دیکھیں، الله کریم نے آپکے پاس کتنی محلوق کو زندگی بخشی ہے.آپ زندگی کا ادب کرنا سیکھیں. اپ پودوں کے ادب سے آغاز کریں، اپ سمجھ لیں کے الله کی پیدا کردہ ہر چیز زندہ ہے، اور ان کی زندگی آپ کی زندگی کی طرح اہم ہے. اگر ہم انسان کی بجایے درخت کی شکل میں پیدا کر دیے جاتے تو یقیناً ہم بطور ایک درخت کے خیال کرتے کہ انسان کتنا ناسمجھ ہے کے ہم پودوں کی زندگی کا احترام نہیں کرتا، ہم کو بلا وجہہ کاٹتا ہے، ہمارے جسم کے حصّے، ہمارے پتے، اور ٹہنیاں بے سببب توڑمروڑ دیتا ہے. کیا ہی اچھا ہو کے آپ پودوں کو زندہ جان لیں، اور ان کے ادب سے آغاز کریں. جب ان کے پاس سے گزریں، تو اپنے اندر رحم لے کے ان کے پاس جایں. پودوں کو پیار سے ہاتھ لگانا سیکھیں. پھر جانوروں کا ادب کرنا سیکھیں، جو الله نے اپ کے سپرد فرما رکھے ہیں اور جن کی زندگی کا اختیار اپ کو دے کے اپ کے لیا حلال فرما دیا ہے. اپ جانوروں کو اپنی مرضی سے، جب چاہیں حلال کرتے ہیں. الله کریم نے اپ کو یہ اجازت دی ہے کے اپ ان کی زندگی کو اپنے خوائش کے لیا استمال کیا کریں، تو کیا ہی اچھا ہو جو آپ ان جانوروں کا ادب کریں جو اپ کو اپنی زندگیاں پیش کرتے ہیں. اور پھر کیا ہی اچھا ہو جو آپ چھوٹے، بڑے ، مسلم، غیر مسلم، مالدار اورغریب سب انسانوں کا ادب کرنا سیکھیں، جو سب آپ کی طرح الله کی محلوق ہیں، اور الله ان کا بھی اتنا ہی رب ہے جتنا آپ کا ہے. جب آپ الله کی محلوق کا ادب کرنا سیکھ جایں گے توممکن ہے کے تمام محلوق کے پروردگار کے ادب کے بھی قریب پہنچ جایں اور یہ اپ کی بڑی کامیابی ہو گی.
جب انسانوں کے ادب کا اغاز کریں، توکسی غریب اور محتاج کے ادب سے کریں. ادب درحقیقت انسسان کا ہے، انسان کی مالی, علمی یا سماجی کامیابیوں کا نہیں. جس انسان کے پاس مالی کامیابی کم ہے، اس کا خالص ادب کرنا ممکن ہے اور آپ کے ادب کرتے وقت بھٹکنے کے کم مواقح ہیں. جب آپ کسی دولت مند یا سماجی اثر و رسوح رکھنے والی شخسیت کا ادب کرنے لگتے ہیں تو کیسے پتا چلے کے اپ انسان کا ادب کر رہےہیں یا اس کے دنیاوی رعب و دبدے کا؟ اگر پیسے کا ادب کرنا ہے تو پھر تو بینک کے سامنے چارپائی بچھا لینی چاہیے، کیونکے بینک کے پاس سب سے زیادہ دنیاوی دولت ہے، لیکن جب خالص ادب کی بات ہے تو ضروری ہے کے ایسے انسانوں سے ابتدا کریں جو زیادہ خالص انسان ہیں اور دنیاوی سامان سے کم آراستہ ہیں اور جن کے ادب میں گمراہ ہونے کے مواقع کم ہیں.
اور انسانوں کا جب ادب کرنے نکلیں، تو ایسے انسانوں کا ادب کریں جن کےادب کرنے کا آپ کو بدلہ نہیں ملے گا. اگر آپ اپنے بچوں کا ادب کریں، تو بہت ممکن ہے کے وہ بچے بڑے ہو کے آپ کا بھی ادب کریں. اس صورت میں آپ کا ادب ایک تعلیمی کوشش یا ایک انویسٹمنٹ ہو سکتا ہے. جیسے آپ زمین میں بیج ڈالتے ہیں کہ بیج سے ایک دن پودا نکل ہے گا اور آپ کو فائدہ دے گا، ویسے اپنے بچوں کا ادب کرنے میں انویسٹمنٹ کا ایک پہلو موجود ہے اور یہ آپ کے ادب کی خالص ہونے کو خراب کر سکتا ہے. لیکن جب آپ کسی بزرگ اور انجانے بزرگ کا ادب کرتے ہیں تو اس صورت میں آپ لا شعوری انویسٹمنٹ سے بھی بچ گئے اوراب اگر الله کریم چاہیں تو آپ کا ادب اب خالص ادب ہونے کے قریب ہے اور آپ کو با ادب انسان بننے کا تحفہ عطاء ہو سکتا ہے.
ادب کی حقیقت
ادب درحقیقت ایک علم ہے، ایک آگاہی ہے اوراس ایک پہچان ہے، اوراس پہچان کا نام ہے اپنے حالق کی پیدا کردہ محلوق کی پہچان. اپنی زندگی سے باہرزندگی کی پہچان. اس بات کی پہچان کہ سب میرے رب کا ہے، اس بات کی پہچان کے سب پیدا شدہ اشیاء میرے رب کے فضل کا اظہار ہے، اور اس بات کی پہچان کے رب کا فضل میرے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے. جب سمجھ آنے لگی کے ہم الله کے فضل کے درمیان گھرے ہوئے ہیں اورعظیم الله اوراسکی پیدا کردہ تحلیق ہمارے چاروں طرف موجود ہے تو پھر ادب کرنے کی وجہ پیدا ہو گئی. ادب درحقیقت ایک آگاہی ہے. جیسے کسی نابینا کواگرآنکھ مل جائے اور وہ چاروں طرف دیکھنے لگے تو وہ بہت خوش ہو گا، اور وہ خوش اس لیے ہو گا کے اس نے دیکھ لیا، اور دریافت کر لیا. نابینا نے اب وہ دیکھ لیا جو پہلے بھی اس کے اس پاس موجود تھا. جب الله کریم نے اسکو آنکھیں عطا فرمائیں تو آنکھیں کے عطا ہونے سےاسکو نظر انے والی چیزیں پیدا نہیں ہو گئیں. چیزیں تو پہلے سے موجود تھیں. فرق صرف اتنا پڑا ہے کے جو پہلے ہی موجود تھا اب وہ دریافت ہو گیا.
ادب بھی اس جیسی آگاہی ہے. ادب بھی تو آنکھوں کے مل جانے کی طرح ایک طرح کا شعور ہے. ادب بھی تو آپ کے دیکھ لینے کی ایک طاقت ہے. فرق صرف اتنا ہے کے آپ ادب ملنے کے بعد الله کی بنی چیزوں کو اندر سے دیکھ پا رہے ہیں. جیسے باہر کی آنکھ آپ کو باہر کا منظر دیکھا کے اپ کو خوش کر رہی ہے، ویسے اب آپ کےعلمی شعور کی آنکھ آپ کو الله کریم کی محلوق دیکھا کے آپ کو شاداب کر رہی ہے.
الله کی محلوق سے الله کا ادب
مجے اپنے زندگی کے ساتھی سے بہت پیار ہے. مجے جب اسکی کوئ چیز زمین پہ گری ملتی ہے تو میں اسکو بڑے پیار سے اٹھا کے میز یا الماری میں رکھ دیتا ہوں، چاہی وہ معمولی سی چیز ہو، جسی کے کوئی بٹن، یا بالوں کی سوئی. مجھے بٹن یا سوئی سے پیار نہیں، لیکن جب وہ بٹن اور وہ سوئی میرے ساتھی کی ہو تو اب مجے اس بٹن اور اس سوئی سے بھی پیار ہے. وہ لمحہ جب آپ کو الله کریم یہ شعور عطا فرما دیں کے ہر ہر چیزجو اپ کو چھو رہی ہے اور اپ کی آنکھ جس کو چھو سکتی ہے، وہ الله کریم کی ہے تو پھر ادب کرنے کی وجہ قایم ہو گئی. اس میز سے لے کے جس پر بیٹھا میں کام کر رہا ہوں، میرے جسم پہ موجود لباس، میری سانسوں میں چلنے والی ہوا اور آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی سب الله کریم کی پید اکردہ ہے، اور الله کریم کی ملکیت ہے، تو اپنے ساتھی کے بٹن اور بالوں کی سوئی کی طرح الله کریم کی پیدا کردہ ہر ہر چیز مجے پیاری ہو گئی. چیزوں کا ادب کرنا مشکل کام ہے، جیسے میں میز کا ادب کیسے کر سکتا ہوں، یا ہوا کا جو میرے چاروں طرف اور میرے اندر بھی موجود ہے، اس ہوا کے ساتھ میں کیسے ادب سے پیش آ سکتا ہوں.الله کی پیدا کردہ بظاھر بے جن چیزوں کا ادب کرنا مشکل کام ہے، لیکن وہ چیز جو ہمارے شعورکے مطابق زندگی رکھتی ہے، اسکا ادب ممکن ہے. اس گروپ میں زندگی کی ہرہر شکل شامل ہو گئی، چاہے وہ چرند پرند ہیں، چاہی وہ پودے و نباتات ہیں، چاہے وہ سمندر میں پائی جانی والی زندگی ہے، چاہے وہ ہوا میں اڑنے والی زندگی ہے، یا زمین پہ چار ٹانگوں سے چلنے والی زندگی ہے یا زمین پے دو ٹانگوں سے چلنے والی زندگی ہے، سب زندگی الله کریم کی پیدا کردہ ہے، اور الله کریم کی پیدا کردہ ہر چیز موحترم ہے اور قابل ادب ہے.
جس نے الله کی پیدا کردہ زندگی کا احترام کرنا سیکھ لیا، اس نے انسانوں کے احترام کی بنیاد رکھ دی، اور جس مکان کی بنیاد رکھ دی جائے، اس کی تعمیر شروع ہو گئی.
ادب کی حفاظت
ادب ایک دولت ہے اور تمام دولت الله کریم کا خزانہ ہے. جب آپ کو ادب کی دولت ملے تو اس کو سمبھالنا سیکھ لیں، اور دولت تب سمبھلتی ہے جب آپ اسکو بانٹ دیا کریں. حضرت علی کا ارشاد ہے، انسان کی قسمت میں وہی کچھ ہےجو اس نے کھا کے فنا کر دیا، یا پہن کے فنا کر دیا، یا صدقہ کر کے محفوظ کردیا. اپ آپ بھی اپنے علم کا صدقہ کر دیا کریں، تا کہ الله اپ کے اس علم کو سمبھال لے اور آپ کا علم محفوظ ہو جائے اور علم کا صدقہ یہ ہے کے وہ آگے پہنچا دیا جائے اور بانٹ دیا جائے.
جاپان کے بچوں کے پہلے سال
اپ کو جان کر خوشی ہو گی کہ جاپان میں بچے اسکول میں جو پہلا علم سیکھتے ہیں وہ انگریزی یا جاپانی کے حروف ا تہجی نہیں ہیں اور نہ وہ حساب کی گنتی ہے. جاپانی بچے اسکول میں پہلا سبق ادب کرنے کا سیکھتے ہیں، اور وہ ادب استاد کا یا ماں باپ کا ادب نہیں، بلکہ اپنے ساتھی بچوں اور زندگی کا ادب ہے. جاپانی جانتے ہیں کہ جو بچہ ادب نہیں کرتا، وہ سیکھ نہیں سکتا، اور جو سیکھ نہیں سکتا، اس کو اسکول آنے کا کوئی فائدہ نہیں. بے شک علم بہت بڑی دولت ہے لیکن یہ بڑی دولت استاد سے بچے تک منتقل ہونے کے لئے ادب کی محتاج ہے. اگر آپ کے جسم میں علم موجود ہے تو اس بات کی تقریباً گارنٹی دی جا سکتی ہے کےآپ با ادب انسان بھی ہیں، اور اگر کوئی شخص بے ادب ہے تو اس بات کی بھی تقریباً گارنٹی دی جا سکتی ہے کے وہ شخص بے علم رہے گا.
حضرت علی کا ارشاد ہے کے اخلاق سب سے بڑی دولت ہے، اور جس کو سب سے بڑی دولت مل جائے، وہ یقیناً بہت کامیاب ہے, اور جو سب سے زیادہ کامیاب ہے، وہ سب سے زیادہ با ادب ہے.
الله کریم آپ کو دونوجہانوں میں کامیاب فرماۓ. آمین.